اشاعتیں

منتخب شاعری

سر شام کیسا نظارہ تھا

سر شام کیسا نظارہ تھا مرے باغ میں ترے ساتھ ایک ستارہ تھا مرے باغ میں مجھے کیا خبر تھی کہ اصل میں وہ فرشتہ تھا جو مسافر اک تھکا ہارا تھا مرے باغ میں پری زاد جس کو اُڑا رہے تھے فلک فلک اُسے کیسے تو نے اُتارا تھا مرے باغ میں مری آنکھ تو نے بنائی تھی مرے خواب میں مراحسن تو نے سنوارا تھامرے باغ میں ترا بے کنار بہشت جانے کہاں پہ تھا مگر اس کا ایک کنارہ تھا مرے باغ میں

لغت وہی ہے فقط معانی بدل رہا ہوں

 لغت وہی ہے فقط معانی بدل رہا ہوں تمہارے دریاؤں کا میں پانی بدل رہا ہوں سنو علاقے ہیں اور بھی یادِ رفتگاں کے سنو میں اندازِ نوحہ خوانی بدل رہا ہوں وہی ہیں عیّار اور زنبیل بھی وہی ہے مگر میں بغداد سے کہانی بدل رہا ہوں وہ آئے گا تو ستارہ اپنی جگہ نہ ہو گا اُسے بتائی تھی جو نشانی بدل رہا ہوں لباس تھا ہی نہیں میسّر جسے بدلتا برہنگی ہو گئی پرانی بدل رہا ہوں جواں تو بیٹے ہوئے ہیں، رکھّے خدا سلامت مجھے لگا جیسے میں جوانی بدل رہا ہوں پرند میرے وزیر ، جگنو سفیر ہوں گے میں اپنا اندازِ حکمرانی بدل رہا ہوں میں خاک کے فرش پر ہوں، دستِ دعا اٹھائے وہ فیصلے جو ہیں آسمانی ، بدل رہا ہوں

یہ ماہ اور سال

 یہ ماہ اور سال جو مری عمر پر لگے ہیں پلٹ کے دیکھوں تو اب بہت مختصر لگے ہیں شجر بنایا عجیب اک شاعری سے میں نے پھراس کی شاخیں کہ جن پہ لعل وگہرلگے ہیں سگِ وفادار اور درویش اس کا مالک ہمیں تو اس شہر میں یہی معتبر لگے ہیں بھرم فقیری کا آخر اظہار کھُل گیا ہے ترے مکاں میں سنا ہے دیوار و در لگے ہیں

نعت

 مدینے کی ہوا ہے اور رخساروں پہ پانی کوئی ایسی لغت جس میں سنائوں یہ کہانی تھمابھی ہے کبھی کیا سیل انسانوں کا اس میں پریشاں ہے مدینے میں ابد کی بے کرانی برہنہ پا کھڑی ہے رات پتھر کی سلوں پر سروں پرصبح صادق نے عجب چادر ہے تانی یہاں مٹّی میں کنک لعل اور یاقوت کے سب درختوں پر یہاں سارے پرندے آسمانی ہوا اس شہر کی جنت کے پھولوں نے بنائی گدا اس شہر کے میں اور سعدی اور قآنی (ضرورتِ شعری کے تحت قا آنی کو قآنی باندھا ہے) مرے آقا کے چاکر اور کیکائوس کا تخت مرے مولا کے خدمت گار اور تاجِ کیانی مطہّر جسم پر دیکھو چٹائی کے نشاں ہیں چٹائی کے نشاں اور دو جہاں کی حکمرانی کہاں تھا وقت میں جب جالیوں کے سامنے تھا مجھےاس نے سمجھ رکھاہے کس برتے پہ فانی کہاں میں اورکہاں یہ فرش اورپلکوں کی جاروب زہے قسمت کہ میں نے لوٹ لی یہ میہمانی کہاں یہ گنبد خضرا کہاں بینائی میری کہاں قلاّش مجھ سا اور کہاں یہ شہ جہانی اسی دہلیز پر بیٹھا رہے میرا بڑھاپا انہیں کوچوں میں گذرے میرے بچوں کی جوانی رہے میرا وطن اس شہر کے صدقے سلامت قیامت کے طلاطم میں یہ کشتی بادبانی مرے دشمن مرا کشکول چھپ کر دیکھتے ہیں غلامانِ محمد کی سخاوت ، ...

جو تخت پر تھا اسے

 جو تخت پر تھا ، اُسے گرفتار کر چکے ہیں پھر اک نیا بادشاہ تیار کر چکے ہیں یونہی بغاوت کا ہم نے پرچم نہیں اٹھایا جو خلوتی ہیں انہیں طرفدار کر چکے ہیں جو ہو سکے تو اب اپنا طرز سخن نکالیں بہت مری پیروی مرے یار کر چکے ہیں کوئی سواری نہ آئے اب دل کے راستے سے کہ اس طرف سے بلند دیوار کر چکے ہیں ملیں جو زیر زمیں تو عشّاق کو بتانا زمیں پہ ہم حسن کو وفادار کر چکے ہیں سفر پہ نکلے ہوئے ہیں بیٹے اور اپنی حالت کچھ اس طرح ہے کہ سینہ گلزار کر چکے ہیں

اپنے لیے ایک نظم

(۱) جو سواری بھی ہاتھ آتی ہے پکڑو یا پیدل نکل پڑو اور دیر نہ کرو تم نے راستے میں بارش ہو یا آندھی یا دھوپ کہیں نہیں ٹھہرنا اور پیغام دینے کے بعد کسی بستی میں نہیں رکنا ایک بستی سے دوسری میں اور دوسری سے تیسری میں اور تیسری سے چوتھی میں چلتے جانا ہے اور اگر رُکنا بھی پڑے تو صرف پانی کے ایک پیالے یا روٹی کے چند نوالوں کے لیے اور ہر جگہ یہی پیغام دینا کہ اگر کھڑے ہو تو چل پڑو اوراگر بیٹھے ہوئے ہوتو اٹھ پڑو (۲) اور بتانا کہ قاصد جن کی کمر پر کسے ہوئے پٹکے اور سروں پر دھوپ سے بچاؤ کے لیے ماتھوں کو ڈھانپتی چادریں اور ہاتھوں میں عصا اور پیروں میں چمڑے کے نوکدار جوتے ہیں بھیجے جاچکے ہیں اُن بستیوں کی طرف جو پہاڑ کے دامن میں ہیں اور اُن بستیوں کی طرف جو دریا کے کنارے پر ہیں اور اُس بستی کی طرف جو مغرب کی بڑی گھاٹی کے پار ہے اور جنوب کے ان قصبوں کی طرف جو تیل کے چشموں کے پاس ہیں اور شمال کے اس بڑے شہر کی طرف جس میں ہم خارج سے پہنچے تھے اور نگاہوں میں کھٹکے تھے اور جس میں ہم نے نام پیدا کیا تھا اور عزت پائی تھی اور حسد پایا تھا اور ماورا النہر کے اُن دور افتادہ شہروں کی طرف جن کی ہم زبانیں جانتے ...

سراجیو

 (یوگوسلاویہ کا شہر SARAJEVO جہاں ۱۹۸۴ء کے اوائل میں ورلڈ اولمپک کے چودھویں سرمائی مقابلے منعقد ہوئے ، ۱۸۷۸ ء تک ترکوں کی سلطنت کا ایک اہم شہر تھا۔ ) مری خاک میں اَن گنت کہکشائیں مری باد سے ان فرشتوں کے پر بادباں جواب بھی خلاؤں میں موجود ہیں مرے آب سے پُر وہ ساغر جو گردش میں ہیں اور رہیں گے مری آگ سے نقر ئی شمعدان زمانے کے طاقوں میں روشن مرے زخم زاروں میں بہتے لہو کے تلاطم سے موّاج خود سر سمندر سمندر جو ترکان عثمان کی جھیل تھا سراجیو ! تجھ کو وہ دن یاد تو ہوں گے جب سایہ آسا، پر اسرار ، جَو پھانکتے نوجوان ڈان وڈینوب کی وادیوں میں ہلال اور ایالوں سے تیار کردہ علم اڑاتے چلے آرہے تھے سراجیو ! تو ان زمانوں کا شاہد ہے جب بعلبک اور حَلب کے سواروں کے چرمی لباسوں کی ضَو ویانا کی دیوار پر پڑ رہی تھی سراجیو ! تو نے وہ خورشید دیکھا ہے جو قاف و قفقاز ، شہر سفید اور ٹھٹھر تے شمالی دیاروں پر روشن رہا سرائیو! تجھ سے وہ سیلِ ابد موج گزرا ہے جس کی بچھائی ہوئی ریت مرجان ولولو سے اب تک بھری ہے سراجیو ! تو نے سفیروں کو دیکھا جو ہاتھوں کو سینوں پہ رکھے خراج اور مکاتیب زربفت کی بقچیوں میں اٹھائے ہوئے "ب...

ناتواں دوش پر شال

 اور اب میری مونچھیں پرانے سویٹر کی ادھڑی سفید اون پہلے کاغذ میں رکھی سیہ فلم اور تھوک ڈبیا میں بند تیری ماں کے گھنے بال (جنہیں چومتے چومتے میں نے راتیں تری سوچ میں آئنوں جیسے برآمدوں کی منقّط سفیدی پہ مل دیں جہاں بین منڈلا رہے تھے جہاں قہر کی صبح آتے ہی سارے سٹیتھو سکوپ سانپ بن جائیں گے اور بداطوار نرسوں کی آنکھوں کے سوراخ کیڑے مکوڑوں کی آماجگاہ) مرے ناتواں دوش پر شال اور تو شمشاد قد آہنی جسم سینے میں اجداد کا علم ، موجوں کا شور دبا کر مرے کندھے اور ماں کے پَیر ماتھے کا بوسہ کہ جنت کے پھولوں کا رس کچھ رقم دے کے بوڑھے محافظ کو میں نے کہا تھا کہ یہ گھاس تو صاف کر دو کہیں قبر چھپ ہی نہ جائے

مجاز

 مسئلہ یہ نہیں کہ بال خشک ہیں یا بھیگے ہوئے بریدہ ہیں یا لمبے رخسار تمتما رہے ہیں یا نہیں مسئلہ یہ ہے کہ تحریر نظر آ رہی ہے یا نہیں اترے ہوئے کبوتر کو اڑانے سے پیشتر اس کے پنجوں سے بندھا ہوا کا غذ کھول لینا سر ما اتر چکا ہے اور خشک گوشت کا ذخیرہ کر لیا گیا ہے تہہ خانے میں بند ہونے سے پیشتر آخری مرتبہ راہ دیکھنا اور اگر گھوڑا میرے بغیر واپس آجائے تو خورجین اور زین اتار لینا اور اگر برف سے اٹا ہوا کوئی مسافر خالی بستی میں آواز لگائے تو اُسے تہہ خانے میں پناہ دے دینا آخر تم فرشتہ نہیں ہو عورت ہو

ثم لتکونوا شیوخا

 (پھر جب تک کہ ہو جاؤ بوڑھے (المومن : ۶۷)) میری آنکھوں کی روشنی بالوں کی سفیدی ہاتھوں کا رعشہ گویائی کی بے اعتباری یادداشت کی حیرت میں جب اس گھر میں اتری تھی تو میرے کان خالص چاندی سے لدے ہوئے تھے اور میری شلوار کا گھیرا کئی گزوں پر مشتمل تھا (تم اس وقت مجھے دیکھتے تو تمہیں وہ ترک عورتیں ضرور یاد آتیں جو تم نے قونیہ کے گلی کوچوں میں دیکھی تھیں ) اس وقت برقی قندیلیں تھیں نہ تیل سے چلنے والی سواریاں میں نے نہ صرف چراغ جلائے بلکہ ان کی لووں پر جو سانپوں کی زبانوں جیسی تھیں اپنی ہتھیلیاں بھی رکھیں تمہارے بابا کو تو بس اتنا پتہ تھا کہ قاہرہ سے کون سی کتابیں شائع ہوئی ہیں اور دستر خوان پر مُسافر کتنے ہوں گے میں نے خاندان کے خاندان پرورش کئے وقت اور جگہ دونوں کی زمام میرے ہاتھ میں تھی ریشم اور دودھ، ظروف اور ضیافتیں خدام اور طُلّاب، پانی اور پوشاکیں بارشیں اور پناہ گاہیں، ندیاں اور سنگریزے گھاٹیاں اور جنات جنگل اور بیر بہوٹیاں زمینیں اور پرندے کا کلہاڑیاں اور برچھیاں دستاریں اور پٹکے تر کی ٹر پیاں اور دور دیسوں میں گئے ہوئے بیٹے جدائیاں اور ستارے، سفر اور نوحے ایندھن اور حویلیاں جاڑے اور ...

سوغات کی کوئی مقدار متعین نہیں

 سوغات کی کوئی مقدار متعین نہیں نہ ہی اس کا وزن کیا جا سکتا ہے۔ گھر کا سارا اثاثہ یا منہ اندھیرے واپس آتے ہوئے بے اختیار دعا مشرقِ بعید سے آئی ہوئی خوشبودار قہوے کی تھوڑی سی پتّی یا گلّے میں سے سفید ترین بھیڑ یورپ میں رہنے والے کسی ہم وطن کے لئے اچار کی بوتل یا الائچیوں کی پڑیا جلدی میں لکھا ہوا ایک خط یا پتھر پر رکھا جانے والا تازہ پھول خوان پوش سے ڈھکے ہوئے سر یا قید خانے میں پکانے کے لئے مسور کی دال ٹیک لگانے اور پتے جھاڑنے کے لئے عصا یا بند کو ٹھڑی میں پھل یا پنیر میں ملا ہوا ذرا سا ز ہر ۔ سوغات کی کوئی مقدار متعین نہیں نہ ہی اس کا وزن کیا جا سکتا ہے۔

وطن آشوب

 ذرا اُٹھ یہ مشروب اور خشک میوے تپائی پر رکھ دختر نیک اختر سے کہہ لمحہ بھر کے لئے مغربی دھن میں گایا ہوا گیت مدہم کرے اور بیگم کی آدھی کھلی چھاتیوں پر اگر گھر میں چادر نہیں ہے تو اپنا لہکتا ہوا ریشمی گاؤن ہی ڈال دے اور خود، تھوتھنی ناز و نعمت سے پروردہ کتّے کی گردن کے بالوں سے باہر نکال ذرا اُٹھ لان کو پار کر اور پھاٹک پر آ مرا باپ اور میں جو خون جلاتے رہے وہ اب میرے بیٹے کی آنکھوں میں ہے

غرناطہ میں آخری نظم

 آگ اور سکوت اور غلام کے قدموں کی چاپ گدھوں والے کسان شہر میں داخل ہو رہے ہیں لیکن بہت جلد دروازے بند ہو جائیں گے اور محصور ہو جانے کے بعد پنیر اور انگور کی رسد منقطع ہو جائے گی زیتون کے باغ اصطبل بن جائیں گے اور غلام دشمن اس سے پہلے کہ ہم پر افتاد پڑے آؤ! قالین پر بیٹھ کر ایک ساتھ کھانا کھا لیں

اسرار کے لئے ایک نظم

 مقدس خوشبوؤں میٹھے جزیروں سے چلا تو دھیرے دھیرے آسمانوں کے سروں میں گنگناتا خوبصورت ننھے ننھے پنکھ پھیلائے مرے ہاتھوں پہ آ بیٹھا مری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں میرے لہو میں نکہتیں بھر دیں ارم مہکا دیے میرے لبوں پر مرے سینے کے صحراؤں میں نخلستان جھوم اُٹھے مری آنکھوں کی پیاری روشنی ! تو جگمگاتا رہ ہمیشہ جگمگاتا رہ ترے سر پر کروڑوں رحمتیں سایہ کناں ہوں ترے ماتھے پہ سورج ہوں تری آنکھوں میں عفت کے ستارے ہوں ترے سینے میں اسما کی ہزاروں کائناتیں ہوں ہماری خاک کا کیا ہے بکھر جائے گی اک دن ان زمینوں میں ترے پَیروں کو جو اُٹھ اُٹھ کے چومیں گی

I Was not Good for Time

(Translation by Muhammad Salim-ur-Rahman) I was not good for Time. Time therefore stood against me. An old man and an old woman loved me but time stroked them into an everlasting sleep and I kept sitting by them. Then a woman and a man kept me close to their hearts but time aged them. and their hearts thinned and weakened. I fell in love with a young woman but when beauty bloomed to its full and its tresses touched the heart. time dragged us towards dusk. so much so that brambles choked the green bowers. I adored and loved little children but when they grew up, time lured them to diverse vocations and they wrapped me up in a sheet of decay. That small, crude hill was not made of emerald and blue stones. It was plain earth and rock which held in its lap an evergreen mulberry tree and in the gorge close to it was a pond. and across was the high ground where we played till the sun went down; where fear crept into the nights. All this remains where it was but time has placed in the far...

A poem for Marziyya

(Translation by Masror Hausen) Our flower-like children When sleeping early morning It looks as if fairies descending from clouds Are resting on silken bed-sheets Bright and flowery, adorned by Turkmen Like angels have come down from heavens In proper order Rolling rosaries in their strong hands Praising the Lords And sitting in bedroom windows Guard them Our flower-like children When sleeping early morning It looks as if subservient time Head lowered, hands clasped, dawdling Waiting by the bedside for them to wake up So that colours splash, morning light shows up Flowers spread perfume Birds sing Our flower-like children When sleeping early morning High above the shining stars Lower than the heavens Where fortune is distributed Almighty packs piety, truthfulness and success And on the wings of archangels, sends carved chests Towards their bedrooms Our flower-like children

A Poem

(Translation by Muhammad Salim-ur-Rahman) There is a strange bitter taste in my mouth The crystal water as it strikes the rocky slabs tears me also into shreds Perhaps at a little distance from here It is snowing in the mountains. Everything is cold. I hold nothing against anyone. Why does the moon peer from a cloud? Why hold up someone who is intent on leaving?

Senility

(Translation by Muhammad Salim-ur-Rahman) I am a park Come, sit here and laugh Bask in the sun and while your day away among my velvet green fields the silver trees, the plentiful flowerbeds and bracing arbours. And when the icy evening lowers, go home, selfish citizens, go home. I will cope all night, all by myself, with the falling snow.

Cordova

(Translation by Muhammad Salim-ur-Rahman) I wear no amour, I carry no sword, as I make my way down Andalusia through centuries of tears. Nowhere to camp beneath the sky. The magic and mystery of a journey lasting eight hundred years. I may, who knows, flower some day at daybreak. Now I trek through a dark where thorns and weeds prevail.

Authorization

(Translation by Muhammad Salim-ur-Rahman) The points is not whether your hair is wet or dry, whether it is still long or has been cropped, whether your cheeks are glowing or not; the points is whether the writing can be seen or not. Remove the piece of paper tied to its leg before you allow the homing pigeon to fly away. The winter is over and the supply of dried meat has been laid in. Before you hole up in the cellar look out for me a last time; and if my horse returns without me take off from in the saddle and the saddle-bag. And should a traveller, covered with snow, call for help in the deserted settlement give him shelter in the cellar. After all, you are not an angel. woman.