سواری نہ خیمہ نہ پانی یہاں
سواری نہ خیمہ نہ پانی یہاں جبھی کی ہے نقل مکانی یہاں شکستہ سی قبر اس کے پہلو میں تھی وہ بستی کہ تھی جو پرانی یہاں اگر چرخ اترا زمیں پر کبھی بدل دوں گا اس کے معانی یہاں چمن جھاڑ جھنکار سے اٹ گئے عجب تو نے کی باغبانی یہاں ہیں اندھے ترے دور میں کوتوال کریں تو تلے قصہ خوانی یہاں ترے عہد میں غرق سارے ہوئے دخانی تھے یا بادبانی یہاں بہت دیر تک روئے گا بادشہ سناؤں گا ایسی کہانی یہاں یہ کوٹھی ہے صاحب! ترے عشق کی ملازم ہیں ہم خاندانی یہاں