منتخب شاعری

پھر درد نے لی ہے انگڑائی کوئی آئے گا

پھر گرد نے لی ہے انگڑائی کوئی آئے گا
پھر دل پر جیسے دھمک پڑی کوئی آئے گا

کوئی آئے گا بادل کی شکل بتاتی ہے
کہتی ہے پرندے کی بولی کوئی آئے گا

کوئی رخصت ہو گا گہری شام کی بارش میں
پھر صبح سے جھانکے گی تتلی کوئی آئے گا

کوئی آئے گا اور سب کچھ بدل کے رکھ دے گا
یہ خلقت بھی، یہ سورج بھی، کوئی آئے گا

کوئی آئے گا اور غربت اطلس پہنے گی
بیچارگی کرنیں اوڑھے گی کوئی آئے گا

جو مٹی پاؤں کے نیچے آتی رہتی ہے
کبھی ہو گی اس کی داد رسی کوئی آئے گا

جو کہیں نہیں وہ آوازیں بھی سنتا ہوں
مجھے دور سے ہے یہ خبر آئی کوئی آئے گا

مجھے دی ہے سنو ترمذ کی خاک نے خوشخبری
مجھے مرو سے کہتی ہے مٹی کوئی آئے گا

مجھے خوشبو آئی ہے انجیر کے پکنے کی
مجھے روکے گیہوں کی مستی کوئی آئے گا

مرے چشمے کا ہے شور عجب کچھ سمجھو تو
مرے شیشم کی ہے چھاؤں نئی کوئی آئے گا

مرے کیکر لد گئے سونے جیسے پھولوں سے
مرے سپنوں میں سرسوں پھولی کوئی آئے گا

مری چھت سے بیل انگور کی اُٹھ اُٹھ دیکھتی ہے
مرے توت پہ بیٹھی ہے قمری کوئی آئے گا

مرے شہد کا چھتہ چھلک رہا ہے پھلا ہی پر
مرا دودھ امانت مہماں کی کوئی آئے گا

میرے رخساروں پر پھول کھلائے ان دیکھے
مرے ہونٹوں کو دی شیرینی کوئی آئے گا

مری نیندیں قرض کی ہیں واپس ہو جائیں گی
مرے خواب مسافر کی پونچی کوئی آئے گا

مری آنکھیں مند مند جاتی ہیں کوئی بات تو ہے
مرے خون میں کیوں ہے لرزش سی کوئی آئے گا

مرے جگنو گھاس اور شبنم استقبال کریں
مری مٹی یوں ہی نہیں بکھری کوئی آئے گا

مری خوشیوں کا کیا پوچھتے ہو تم دیکھو گے
مری آنکھوں پر اُس کی ایڑی کوئی آئے گا

ہر سمت سے وقت رواں ہے میری ہی جانب
دیکھو تو یہ پیغامبری کوئی آئے گا

کہیں دور سے اُڑ کر اک غالیچہ آتا ہے
یا شہزادہ یا لال پری کوئی آئے گا

یہ فرغل آنکھیں کات کے میں نے بنایا ہے
پھر اس پر ٹانکی اپنی ہنسی کوئی آئے گا