ثمر پتھر کے ہیں پیڑوں کا سایہ ہی نہیں ہے
ثمر پتھر کے ہیں پیڑوں کا سایہ ہی نہیں ہے
تو کیا کوئی پرندہ چہچہایا ہی نہیں ہے
میں ایسا باغ ہوں جس پر کبھی پانی نہ برسا
میں ایسا کھیت ہوں جو لہلہایا ہی نہیں ہے
اُتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں
مگر اس سیرگہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے
جبین و چشم اور ماہ و ستارہ سب کو دیکھا
دیا سچ پوچھیے تو کوئی بھایا ہی نہیں ہے
ابھی سے کیوں طنابیں بحر و بر کی کھنچ گئی ہیں
ابھی تو واقعہ میں نے سنایا ہی نہیں ہے
ہزاروں ہیں کبھی تعداد کم ہونے نہیں دی
کہ ہم نے دوستوں کو آزمایا ہی نہیں ہے