میں زِندَگی اور بَخت پانی سے ڈھالتا ہُوں
میں زِندَگی اور بَخت پانی سے ڈھالتا ہُوں
کبھی سَفِینے، کبھی جَواہِر اُچھالتا ہُوں
یہ پیاس سے جاں بَلَب ہیں مُنکِر مرے ہُنَر کے
میں سَنگِ خارا سے آبِ شِیرِیں نِکالتا ہُوں
میں جا پہنچتا ہُوں چاہ سے شاہ کے مَحَل میں
نِکَل کے زِنداں سے مَیں حُکومَت سَنبھالتا ہُوں
زَمیں سے اور آسماں سے پانی اور ایک کَشتی
مَیں سَینکڑوں سال اِس مُصِیبَت کو ٹالتا ہُوں
میں اپنی تَوقِیر عِشْق میں بُھولتا کہاں ہُوں
میں چاند کے سامنے سِتارہ اُجالتا ہوں
تُم اَپنی اِقْلِیم سے زَر و سِیم جَمَع کَرلو
میں اَپنی گُدْڑی سے ایک آیَت نِکالتا ہوں