یہ ریشم یہ لباس حکمرانی جل اُٹھے گا
یہ ریشم یہ لباس حکمرانی جل اُٹھے گا
وہ ظلمت ہے کہ اب اک روز پانی جل اُٹھے گا
یہاں فرق مراتب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
مگر یہ بھی تو اے دنیائے فانی جل اُٹھے گا
کروں گا میں حساب اے حسن تیری حدتوں کا
مگر اس روز جب برگ جوانی جل اُٹھے گا
کنیزیں مشعلیں شمعیں ستارے رات کے رات
سحر ہو گی تو خیمہ آسمانی جل اُٹھے گا
نہ جانا قصّہ گو کی بھیگتی پلکوں پہ اظہار
سنا کر خاک زادوں کی کہانی جل اُٹھے گا