پھولوں بھرا قالین ہو تَبریز سے آیا ہوا
پھولوں بھرا قالین ہو تَبریز سے آیا ہوا
دیوانِ غالِب پاس ہو اور اَبر ہو چھایا ہوا
تُو ساتھ ہو زُلفِ تَراشِیدَه تری ہو رَقص میں
تیرے خمِ اَبرُو سے ہو مہتاب گہنایا ہوا
جَب بھی چَلیں دِل پَر مرے پَیروں کے ناخُن سُرخ ہوں
رُخسار میں حِدَّت ہو جُوں اَنگار دہکایا ہوا
پانی پَرِندے پھُول اَبر و آسماں گِریَہ کُناں
کیا تُو نے دیکھا ہے کَبھی مَعشُوق مُرجھایا ہوا
ہے اِک نَگَر ایسا جَہاں پانی کے اُوپَر تَخت ہیں
ہے باغ اِک ایسا کہ جو اُوپَر سے ہے آیا ہوا
پیڑوں سے لِپٹی بَرف تھی اُس پر شُعاعیں چاند کی رِضوان دیکھا تھا وَہاں پھِرتا تھا شَرمایا ہوا