یہ نَخل جِس پہ آج ہیں لَمحے لَگے ہُوئے
یہ نَخل جِس پہ آج ہیں لَمحے لَگے ہُوئے
اِس پَر تھے سال اور مَہِینے لَگے ہُوئے
یُوں تھا کہ مَیں بھی چاند تھا، دادا مِرا بھی تھا
اِک پَیڑ تھا اور اُس پہ اَلُوچے لَگے ہُوئے
کیا کیا تھے دِن کو اسپِ سَواری کے ذائقے
قاف اور پَری کے رات کو قِصّے لگے ہُوئے
مَستُور سُرْخ رَنگ رَداؤں میں بِیبِیاں
اُونٹوں پہ زَرد رَنگ کَجاوے لَگے ہُوئے
اِک چارپائی بَان کی کِیکَر کی چھاؤں میں
دِیوار پَر وہ سامنے اُپلے لَگے ہُوئے
مَرمَر سے جَیسے تَراشا ہُوا تھا تَمام باغ
پَیڑوں کے ساتھ جَیسے پَرِندے لَگے ہُوئے
پوتوں نَواسِیوں کے چَمَن زار واہ واہ
اَولاد پَر بَہِشت کے میوے لَگے ہُوئے
دیکھا کَریں گے اَہلِ زَمِیں کو پسِ وفات
ہَیں آسمان پہ ہِجر دَرِبیچے لَگے ہُوئے
سَر ہو سَکی نہ اُن کی مَدَد سے کوئی مُہِم
دیوارِ دل پہ عِشْق کے نَقشے لَگے ہُوئے
اِس خارزارِ دَرد میں اَحباب کا وُجود
اِس دھوپ میں ہیں چھاؤں کے ٹُکڑے لَگے ہُوئے
یہ بَحر و بَر ہیں کھیل فِراق اور وِصال کا
ہیں پانِیوں کے ساتھ جَزِیرے لَگے ہُوئے