جو تخت پر تھا ، اُسے گرفتار کر چکے ہیں پھر اک نیا بادشاہ تیار کر چکے ہیں یونہی بغاوت کا ہم نے پرچم نہیں اٹھایا جو خلوتی ہیں انہیں طرفدار کر چکے ہیں جو ہو سکے تو اب اپنا طرز سخن نکالیں بہت مری پیروی مرے یار کر چکے ہیں کوئ سواری نہ آئے اب دل کے راستے سے کہ اس طرف سے بلند دیوار کر چکے ہیں ملیں جو زیر زمیں تو عشّاق کو بتانا زمیں پہ ہم حسن کو وفادار کر چکے ہیں سفر پہ نکلے ہوئے ہیں بیٹے اور اپنی حالت کچھ اس طرح ہے کہ سینہ گلزار کر چکے ہیں |
جو تخت پر تھا اسے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
2 comments:
Wallah! aakhri sher jaise maine likha ho.
great. what refined poetry
Post a Comment