وطن آشوب
ذرا اُٹھ
یہ مشروب اور خشک میوے تپائی پر رکھ
دختر نیک اختر سے کہہ لمحہ بھر کے لئے مغربی دھن میں گایا ہوا
گیت مدہم کرے
اور بیگم کی آدھی کھلی چھاتیوں پر اگر گھر میں چادر نہیں ہے تو اپنا
لہکتا ہوا ریشمی گاؤن ہی ڈال دے
اور خود، تھوتھنی ناز و نعمت سے پروردہ کتّے کی گردن کے بالوں
سے باہر نکال
ذرا اُٹھ
لان کو پار کر اور پھاٹک پر آ
مرا باپ اور میں جو خون
جلاتے رہے
وہ اب میرے بیٹے کی آنکھوں میں ہے