منتخب شاعری

اپنے لیے ایک نظم

(۱)

جو سواری بھی ہاتھ آتی ہے پکڑو

یا پیدل نکل پڑو

اور دیر نہ کرو

تم نے راستے میں

بارش ہو یا آندھی یا دھوپ

کہیں نہیں ٹھہرنا

اور پیغام دینے کے بعد کسی بستی میں نہیں رکنا

ایک بستی سے دوسری میں اور دوسری سے تیسری میں

اور تیسری سے چوتھی میں

چلتے جانا ہے

اور اگر رُکنا بھی پڑے

تو صرف پانی کے ایک پیالے

یا روٹی کے چند نوالوں کے لیے

اور ہر جگہ یہی پیغام دینا کہ

اگر کھڑے ہو تو چل پڑو

اوراگر بیٹھے ہوئے ہوتو اٹھ پڑو


(۲)

اور بتانا

کہ قاصد

جن کی کمر پر کسے ہوئے پٹکے

اور سروں پر دھوپ سے بچاؤ کے لیے

ماتھوں کو ڈھانپتی چادریں

اور ہاتھوں میں عصا

اور پیروں میں چمڑے کے نوکدار جوتے ہیں

بھیجے جاچکے ہیں

اُن بستیوں کی طرف جو پہاڑ کے دامن میں ہیں

اور اُن بستیوں کی طرف جو دریا کے کنارے پر ہیں

اور اُس بستی کی طرف جو مغرب کی بڑی گھاٹی کے پار ہے

اور جنوب کے ان قصبوں کی طرف جو تیل کے چشموں کے

پاس ہیں

اور شمال کے اس بڑے شہر کی طرف

جس میں ہم خارج سے پہنچے تھے

اور نگاہوں میں کھٹکے تھے

اور جس میں ہم نے نام پیدا کیا تھا

اور عزت پائی تھی

اور حسد پایا تھا

اور ماورا النہر کے اُن دور افتادہ شہروں کی طرف

جن کی ہم زبانیں جانتے تھے

اور جہاں کے باشندوں نے ہمیں اپنا سمجھا تھا

اور ان پردہ نشینوں کی طرف

جن کی نقابوں سے شعائیں چھن کر باہر آتی تھیں

اور بتانا کہ اب

جب قاصد بھیجے جاچکے ہیں

تو وقت ہی کتنا باقی ہے

اگر کھڑے ہو تو چل پڑو

اور اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اُٹھ پڑو


(۳)

اور بتانا

کہ سبزے میں سرسراتے سانپ رک گئے ہیں

کھیتوں سے خربوزوں

باجرے کے خوشوں ، موٹھ کی پھلیوں اور گندم کی اَدھ پکی بالیوں

کی مست خوشبو اُڑ چکی ہے

دلدلیں گہری ہوگئی ہیں

سوار دھنس چکے ہیں

نیزوں نے کھونٹوں کو اُکھاڑ نا بند کر دیا ہے

مصر سے آئی ہوئی کہنہ کتابوں کے تہ شدہ زرد اوراق

جن پر عربی ٹائپ کے حروف ابھرے ہوئے تھے

پھٹ چکے ہیں

نظامی اور جامی اس پار رہ گئے ہیں

پُل ٹوٹ چکا ہے

آب زریں سے لکھے ہوئے گلستان سعدی کا نسخہ

چھت سے ٹپکتے ہوئے بارش کے پانی سے اُجڑ چکا ہے

استعمال کے عام برتن

نوادرات میں ڈھل چکے ہیں

اور بتانا

کہ ایک طرف کو جھکی ہوئی ٹہنیاں

واپس اپنی جگہ پر نہیں آئیں کیوں کہ ہوا نا پید ہو گئی ہے

بادلوں نے ہیبت ناک شکل اختیار کر لی ہے

ستاروں اور سورج میں سمجھوتہ ہو گیا ہے

چرا گاہوں کو گئے ہوئے گڈریے مفقود الخبر ہو چکے ہیں

پرندے خوف سے پتھر ا گئے ہیں

اور جانور بھانپ چکے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے

عورتوں نے سروں کو برہنہ کر لیا ہے

اور مرد تیار بیٹھے ہیں

تم بھی اگر کھڑے ہو تو چل پڑو

اور اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اُٹھ پڑو


(۴)

اور بتانا

کہ پتھر تراشے جا رہے ہیں

اور زمین کھودی جارہی ہے

اور جانور ذبح کیے جا رہے ہیں

اور اناج کی بوریاں لادی جا رہی ہیں

اور وہ بھی جن پر ضعف غالب آ رہا ہے

اور عورتیں بھی ڈھکی ہوئی اور نظر آنے والی

اور سب ایک ہی سمت جا رہے ہیں

اور سب سفر کر کے آئے ہیں اور خستہ ہیں

اور سب سکوت میں ہیں

اور بتانا کہ کہیں ایسا نہ ہو

کہ تم پہنچو تو یہاں کچھ بھی نہ ہو

اس لیے

اگر کھڑے ہو تو چل پڑو

اور اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اٹھ پڑو